01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 5
آں چست
از روز میری
قسط نمبر5
"آنکھیں کہتی ہیں بیٹھے تو میرے روبرو
تجھ کو دیکھوں عبادت ' کرتا رہوں
تیرے سجدوں میں دھڑکے دل یہ میرا
میری سانسوں میں چلتا ہے بس اک تو
عشق دا رنگ تیرے
مکھڑے تے چھایا
جدوں دا میں تکیا اے
چین نئی آیا
کناں سوہنڑاں
ہوووووو
کناں سوہنڑاں تینوں رب نے بنایا
کناں سوہنڑاں تینوں رب نے بنایا
جی کرے ویکھدا رواں"
حویلی کر لان میں گیٹار سامنے رکھے' احد نے اسکے تار چھیڑتے تان اٹھائی۔
اسکے حلق سے نکلتی آواز کے سروں سے شادمان ہوا جیسے جھومنے لگی تھی۔۔ اس دم احد کے فون پہ رنگ ٹون پوری قوت سے دھاڑی۔ منہ کے ساتھ ہاتھ کی حرکت سے باز رہتے احد نے گیٹار سائیڈ پہ رکھتے فون اٹھایا جہاں سکرین پہ مشائم کا نمبر دیکھتے وہ مسکرا دیا۔
"کیا کر رہے ہو؟"۔ کال ریسیو کرتے ہی مشائم کی مٹھاس بھری آواز احد کے کانوں میں رس گھول گئی۔
"کچھ نہیں ایم یو سی ڈبلیو' آپکے دیئے ہوئے گیٹار پہ ریہرسل کر رہا تھا"۔ چیئر سے اٹھتے اسنے چہل قدمی کے سلسلے کی ابتداء کی۔
"اچھا' ایم یو سی ڈبلیو کا مطلب؟"۔
"مائی اپ کمنگ وائف"۔ احد ہنس دیا۔
"آہاں"۔
"جی' سناو طبیعت کیسی ہے؟"۔
"تمھارے ہوتے ہوئے بھلا بگڑ سکتی ہے؟"۔
"اللہ نا کرے کبھی بگڑے بھی مجھے میری مشائم ہمیشہ پہلے کی طرح چاہیئے ۔۔ ہنستی' کھیلتی' تنگ کرنے والی"۔ احد نے دلربائی سے کہا۔
"اچھا جی"۔
"بالکل"۔
ان دونوں کے مابین بات چیت کا سلسلہ یونہی برقرار رہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد بیٹا نانو آ رہی ہیں۔ شام چھ بجے کی ٹرین ہے' تم یاد سے انہیں لے آنا"۔ ہال میں کشادہ صوفے پہ لیٹے' فون کی دنیا میں غرق احد کو راضیہ بیگم نے مخاطب کیا۔
"کیا واقعی؟"۔ فون سے نگاہ ہٹاتے احد نے خوشی کا اظہار کیا۔
"ہاں احد' خوشی کے گھوڑے پہ سوار ہو کر غائب مت ہو جانا۔ یاد رکھنا کہ انہیں لینے بھی جانا ہے' ایسا نا ہو کہ تم بھی بھول جاو اور میرے ذہن سے بھی نکل جائے"۔ راضیہ بیگم نے تنبیہ کی۔
"ماما آپ بے فکر رہیں مجھے یاد رہے گا"۔ احد نے جوابا کہا۔
"میں ذرا چل کے انکے کھانے کا اہتمام کر لوں"۔ راضیہ بیگم مطمئن کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آفتاب اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا' احد حسب حال چھ بجے ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا تھا۔ ٹرین کی آواز کیساتھ فلک بوس ہارن کی آواز پہ احد بینچ سے اٹھا اور فون پاکٹ میں رکھتے ٹرین سے اترتے ہجوم پہ متلاشی نگاہ ڈالی۔
دس منٹ کے توقف پہ احد کی تلاش کا سفر اختتام کو پہنچا۔
"اسلام و علیکم نانی جان"۔ متضاد سمت سے آتی ادھیڑ عمر خاتون کے ہاتھوں سے بیگ پکڑتے احد نے احتراما کہا۔
"وعلیکم السلام احد' میرے بچے کیسے ہو؟"۔ خاتون نے احد کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے پیار کیا۔
"میں ٹھیک ہوں نانی جان' آپکو دیکھ کر تو اور بھی زیادہ ٹھیک ہو گیا ہوں"۔ احد نگینہ بیگم کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن سے باہر کی جانب قدم رکھنے لگا۔
"نواسے کی شادی کا سن کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور فورا چلی آئی"۔
اب وہ دونوں کار کے قریب پہنچ چکے تھے۔ احد نے بیگ پچھلی سیٹ پہ رکھ کر نگینہ بیگم کے لیئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔
"یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا کیونکہ اگر آپ نا آتیں تو میں نے آ جانا تھا آپکو لینے کیلیئے"۔ بولتے ہی احد نے دروازہ بند کیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آ گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ اندھیرے کی کالی چادر چار سو چھائی تھی جسے کہیں دور سے چیرتیں دو پیلی بتیاں مانو ہوا میں اڑتیں محسوس ہو رہی تھیں۔ کار کی تیز رفتاری کے سبب ان بتیوں کی رفتار بھی تیز تھی۔
"احد اور کتنا وقت درکار ہے؟؟"۔ وہ جو کب سے چپ سادھے ہوئے تھیں لگاتار سفر کے باعث بے زار ہو چکی تھیں۔
"نانو جان بس پندرہ' بیس منٹ اور لگیں گے"۔ احد نے تسلی دیتے کہا۔
نگینہ بیگم منہ موڑ کر دوسری طرف شیشے سے پار دیکھنے لگی تھیں۔
یکلخت احد کی نظر ریئر ویو مرر پر گئی جہاں اندھیرے کے باعث اسے دو چمکتی آنکھوں کی تپش خود پہ محسوس ہوئی۔ احد کا پرسکون دل خوف و ہیبت سے دھڑکنے لگا تھا۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ آنکھیں اس پہ ہنس رہی ہوں۔ احد نے یکدم بریک پہ پیر رکھا جس سے نگینہ بیگم' جو اپنے دھیان میں بیٹھیں تھیں، کو ہلکا سا جھٹکا لگا۔
"کیا ہوا احد؟؟ تم نے گاڑی کیوں روک دی؟"۔ نگینہ بیگم نے تعجب سے احد کو دیکھا جو پچھلی سیٹ کی جانب دیکھ رہا تھا جہاں سوائے اندھیرے کے کچھ نا تھا۔
"احد بیٹا کیا ہوا؟؟کیا دیکھ رہے ہو؟؟"۔
"ک۔ ک۔ کچھ نہیں نانو"۔ ڈرے' سہمے دل سے اسنے چہرہ موڑ کر ریئر ویو مرر دوبارہ دیکھا جس پہ وہ چمکتی آنکھیں اسے دوبارہ سے دکھائی دیں۔
احد نے خوف کے مارے بمشکل تھوک نگلا پھر کار کی سپیڈ میں جان ڈالی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اسلام و علیکم اماں جی کیسی ہیں آپ؟؟"۔ سمعان صاحب' نگینہ بیگم کے روم میں داخل ہو کر کہنے لگے جہاں راضیہ بیگم پہلے سے موجود تھیں۔
"وعلیکم السلام عامر میاں' میں تو ٹھیک ہوں تم سناو تمھارا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟؟"۔ سمعان صاحب کی آواز پہ نگینہ بیگم نے اپنی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔
"کاروبار بھی بس چل ہی رہا ہے اماں جی اللہ کا کرم ہے۔ مالک ہے تو نظام چل رہا ہے'انسان کی اتنی کیا بساط"۔ سمعان صاحب بیڈ کے قریب رکھی چیئر پہ براجمان ہو گئے۔
"کھانا لگا دوں؟"۔ راضیہ بیگم نے کہا۔
"آپ لوگوں نے کھا لیا؟ اور اماں جی آپ نے؟"۔ راضیہ بیگم کے بعد سمعان صاحب نے نگینہ بیگم سے کہا۔
"ہم لوگوں نے کھا لیا ہے سمعان میاں رات بہت ہو گئی ہے' تم بھی کھا لو"۔ نگینہ بیگم نے کہا۔
"میں کھانا لگاتی ہوں آپ آ جائیں"۔ راضیہ بیگم اٹھتے روم سے نکل گئیں تھیں۔
"اچھا اماں جی آپ آرام کریں انشاءاللہ کل ملاقات ہوگی"۔ سمعان صاحب بھی نشست چھوڑتے اٹھ کھڑے ہوئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"صاحب نثار صاحب آئے ہیں' ڈرائنگ روم میں آپکا انتظار کر رہے ہیں"۔ احد اپنے روم میں کال سننے میں منہمک تھا جب خادمہ نے اسے آگاہ کیا۔
"ون منٹ' ٹھیک ہے تم جاو میں آتا ہوں۔ میں آپکو کال بیک کر تا ہوں"۔ خادمہ کو رخصت کرتے احد نے کالر سے معذرت کرتے کال کاٹ دی پھر فون بیڈ پہ رکھتے روم سے نکل گیا تھا۔
زینے اترنے کے بعد احد سیدھا ڈرائنگ روم پہنچا جہاں سیٹھ نثار صاحب اسی کے منتظر تھے۔
سیٹھ نثار صاحب کا شمار شہر کے معززین اور امراء میں کیا جاتا تھا۔ پنجاب گروپ آف کالجز کے ساتھ ساتھ سیٹھ نثار صاحب شالیمار بس ٹریولز کے آنر بھی تھے۔ ایک سیلیبرٹی ہونے کی حیثیت سے احد کے ساتھ انکے گہرے روابط تھے۔
"اسلام و علیکم سیٹھ صاحب' آپ ہمارے مسکن پہ امید ہے خیریت رہی ہوگی؟"۔ احد نے پرتپاک انداز میں کہا۔
"وعلیکم السلام مسٹر احد بالکل خیریت ہے دراصل آپ سے ایک درخواست کرنی تھی"۔ صوفے سے اٹھتے سیٹھ نثار نے کہا۔
"جی جی سیٹھ صاحب حکم کریں"۔ نثار صاحب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے احد اسکے مقابل رکھے کشادہ صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔
"دراصل میری اکلوتی بیٹی کی شادی ہے بحیثیت گلوکار وہ آپکو پسند کرتی ہے اور بضد ہے کہ اگر آپ اسکی شادی میں نہیں آئیں گے تو وہ شادی نہیں کرے گی۔ اس وجہ سے میں آپ سے ریکویسٹ کرنے آیا ہوں ' امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں لوٹائیں گے؟"۔ نثار صاحب نے وضاحت کرتے التجا کی۔
"میں سمجھ سکتا ہوں نثار صاحب' یہ میرے لیئے اعزاز کی بات ہے۔ آپ بے فکر رہیں آپکی بیٹی کی خواہش بھی پوری ہو گی اور شادی بھی ضرور ہوگی"۔ احد نے خوش اسلوبی سے حامی بھری۔
"اعزاز کی بات تو ایسے بول رہے ہو جیسے کوئی تمغہ مل رہا ہے"۔ نسوانی آواز دوبارہ سے احد کے کانوں کے پاس سے گزری جس پہ اسکے لبوں کی ہنسی چھو منتر ہوئی۔
خوف و خطر میں احد کے چہرے سے عرق نکلنے لگا تھا۔ خود کو بمشکل کمپوز کرتے احد نے بناوٹی مسکراہٹ لبوں پہ سجالی۔
"آپکا بہت شکریہ مسٹر احد"۔ نثار صاحب نے بولتے ہی انویٹیشن کارڈ احد کی طرف بڑھایا۔
"میں اپنی پوری کوشش کروں گا نثار صاحب"۔ احد نے کارڈ پکڑتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ہیلو مشائم کیسی ہو؟ کیا کر رہی ہو؟"۔ فون کان کے ساتھ لگائے احد روم میں داخل ہوا۔
"ٹھیک ہوں تم سناو؟"۔ دوسری جانب لگاوٹ سے جواب دیا گیا۔
"ٹھیک ہوں' مجھے تم سے اک بات کرنی ہے تمھارے پاس کوئی ہے تو نہیں؟؟"۔ احتیاطی تدابیر کے تحت پوچھا گیا۔
"نہیں پاس کوئی بھی نہیں میں اکیلی ہوں' تم نے کونسی ایسی بات کرنی ہے جو کنفرم کر رہے ہو؟؟"۔ مشائم نے شرارت سے کہا۔
"ذہن پہ زیادہ زور مت دو ورنہ پھر سے طبیعت خراب ہو جائے گی۔ نارمل بات ہے اور ویسے بھی جن کے بارے میں آپ سوچ رہی ہیں وہ انشاءاللہ اس روم کی حدود تک محدود رہیں گیں' آپکو فکر مند ہونے کی قطعا ضرورت نہیں"۔ مصنوعی سنجیدگی کا لبادا اوڑھے احد زیر لب مسکرا دیا۔
"ایسی کونسی باتیں ہیں؟"۔ مشائم بھی آخر اسی کی صحبت میں رہ چکی تھی' کہاں پاوں کھینچنے والی تھی۔
"اٹس آ ٹاپ سیکریٹ بٹوین می اینڈ می اینڈ می' کوائیٹ"۔ احد نے ڈپٹ کر کہا۔
"پہلے خود سوچ سمجھ کے بولا کرو نا"۔ مشائم قہقہ لگا کر ہنس دی۔
"کیا کروں جب تم سے بات کرتا ہوں تو ہر حد بھول جاتا ہوں"۔
"او ہیلو مسٹر احد سمعان انسان بن جائیے ورنہ بنانا بھی آتا ہے' بات کیا ہے؟ وہ بتاو مہربانی ہوگی"۔ احد کو پٹڑی سے اترتا دیکھ مشائم نے جھٹ سے کہا۔
احد نے جاندار قہقہ لگایا پھر بیڈ پہ جا بیٹھا۔
"تم کل تیار رہنا شام پانچ بجے تک' میں تمھیں پک کر لوں گا"۔
"کیوں کہاں جانا ہے؟"۔
"نثار صاحب کی بیٹی کی شادی ہے وہاں جانا ہے' خاص انکی بیٹی کیلیئے"۔ احد شریر ہوا۔
"انکی بیٹی کیلیئے کیوں؟"۔ مشائم متعجب ہوئی۔
"بھئی کیا ہے نا ایک راکسٹار کے بہت فینز ہوتے ہیں' ڈائی ہارٹ فینز۔ یہ بھی انہی میں سے ایک ہے"۔ احد نے لطف اندوزی سے بولتے بیڈ کے تاج سے ٹیک لگالی۔
"اچھا تو پھر تم جاو' میں نہیں جاوں گی اور جا کر اسی سے بات کرو، سمجھے' بائے"۔ مشائم نے ناراضگی میں رابطہ منقطع کر دیا تھا۔
"مشی' مشی میری بات تو سنو یار' پاگل لڑکی' آئی لو یو سو مچ یار 'پلیز لسن ٹو می"۔ احد بولتا رہ گیا۔
اسی اثنا میں کھڑکی کے پٹ زور سے کھلے جیسے کسی نے غصے میں دھکے سے کھولیں ہوں۔
احد جو مطمئن بیٹھا تھا فورا سے سیدھا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆